ٹینیٹنگ ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹی ۔۔۔۔۔ ٹینیٹنگ ٹن ٹن ٹن ٹن ٹن ٹی —– ابھی میں نے اپنی سریلی آواز میں الاپ لگائی ہی تھی کہ کھٹ سے میری مالکہ جاگ اٹھیں- یقین کیجیے پچھلے ایک سال سے میں ان کے ساتھ رہ رہا ہوں اور ہر روز رات کو یہ مجھ کو ایک دو نہیں بلکہ پانچ پانچ منٹ کے چار وقفوں سے جگانے کی تنبیہ کرتی ہیں اور قسم لے لیجیئے جو یہ کبھی تیسری گھنٹی سے پہلے اٹھ جائیں- خیر آج کے دن کی بات ہی کچھ نرالی تھی آج میری مالکن اپنی بیٹی، سہیلی اور ان کی دو عدد صاحبزادیوں کے ہمراہ لنکا ڈھانے، ارے ارے معاف کیجیے گا لنکا ڈھانے نہیں چھٹی منانے سری لنکا جا رہی تھٰیں- جی ہاں وقت کا تقاضہ سمجھ لیجیے یا آزادی نسواں کی تحریک کا ایک اہم سنگ میل کہ اب خواتین سال میں ایک دفع یا کم از کم زندگی میں ایک دفع تو ضرور اپنی سکھی سہیلیوں کے ہمراہ چھٹی پر جاتی ہیں- اور اگر کھلے دل و دماغ سے سوچیں تو درحقیقت میاں بچوں کے ساتھ کی جانے والی چھٹی کے بعد خاتون خانہ کو ایک اور چھٹی درکار ہوتی ہے کیونکہ فیملی چھٹی میں گھر کی عورت کے علاوہ ہر ایک چھٹی پر ہوتا ہے- خیر نہا دھو کر تیار ہونے کے بعد بی بی میری خدمات حاصل کر کے چانگی ائیرپورٹ کے لیے ٹیکسی کال کرنے ہی والی تھیں کہ صاحب بہادر بھی اس ہلکی سی کھٹ پٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے جبکہ عام حالات میں جب بچوں کو اسکول چھوڑنے کا مسئلہ درپیش ہو تو چاہے ان کے سر پر جتنی مرضی بین بجاؤ مجال ہے جو ٹس سے مس ہو جائیں- بی بی کو یوں تیار کھڑا دیکھ کر صاحب بہادر کو بیگم ہاتھ سے نکلتی نظر آئیں تو میکسمم ڈّیمج کنٹرول کی پالیسی کے تحت بیگم کی آذادی کو لگامیں ڈالتے ہوئے انہوں نے زبردستی بی بی اور بٹیا کو ائیرپورٹ چھوڑنے کے لیے گاڑی نکالی- اپنی عقل، تجربے اور انا کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ائیرپورٹ تک کے راستے میں صاحب بہادر نے بی بی کو سفر کے متعلق ہر قسم کے قیمتی مشورے سے نوازا جو بی بی نے نہایت سمجھداری اور صبر و تحمل سے سنا مگر جب صاحب بہادر کی نصیحتوں کا پلندہ بڑھتا ہی چلا گیا تو بی بی نے پرسکون لہجے کے ساتھ ایک ہی جملے میں ان کی بولتی بند کرا دی- “ارے ہاں میں تو پوچھنا ہی بھول گئی وہ جو تم نے اپنا پرس اور آئی ڈی کارڈ وغیرہ ایئرپورٹ پر گمایا تھا اس کا کیا بنا، کہو تو جاتے جاتے کاؤنٹر سے پتا کر لوں-“ اس جملے کے بعد صاحب بہادر صابن کی جھاگ کی طرح بیٹھ گئے یہاں تک کے بی بی اور بٹیا کو ڈراپ لین میں ہی اتار کر چلتے بنے- تقریبا پندرہ منٹ بعد بی بی کی سہیلی صفو جی اور ان کی لڑکیاں منا اور چتو رانی بھی ائیرپوٹ پہنچ گئیں- ان کے یہاں بھی حالات کچھ ہمارے ہی گھر جیسے تھے- صفو جی کے شوہر نامدار نے ہدایتوں کی بوچھاڑ کر رکھی تھی جیسے تین تین بچے پیدا کرنے ، پالنے، گھر چلانے، خاندان نبھانے اور اپنی خوش دامنوں کے دیے گئے تحفوں یعنی کہ اپنے شوہروں کو سنبھالنے والی یہ خواتین عقل سے بالکل پیدل ہوں- سری لنکن ائیر لائین کے کاؤنٹر پرسامان جمع کرانے اور بورڈنگ پاس لینے کے بعد اس قافلے نے لاؤنج کا رخ کیا لیکن ٹھہرئیے کسی بھی پروگرام کا آغاز میری پلک جھپکنے کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے سو مجھے ایک ڈندے پر سوار کرا کے فٹ سے تمام خواتین پوز مار کر کھڑی ہو گئیں — سو یہ تھی اس سفر کی لا تعداد سیلفیوں میں سے پہلی سیلفی – سری لنکن ایئر لائین کے چھوٹے سے صاف ستھرے جہاز میں مور پنکھ کے پرنٹ کی ساڑھیاں پہنے بڑی بڑی آنکھوں، گھنے بالوں اور سانولی رنگت والی فضائی میزبان نہایت خوشدلی سے مسافروں کا استقبال کر رہی تھیں۔ سنگاپور سے سری لنکا لگ بھگ چار گھنٹے کی پرواز تھی جو مجھے بھی سکون کے نصیب ہوئے کیونکہ بی بی اور صفو جی جہاز میں بیٹھتے ہی نیند کی وادی میں غرق ہو گئیں- سنگاپور ائیرپورٹ کے بعد کولمبو ائیرپورٹ ایسے ہی لگ رہا تھا کیسے آپ اسلام آباد سے شاہدرہ کے بس اڈے پر آ پہنچے ہوں- سامان لینے کے بعد پہلا مرحلہ گاڑی لینے کا تھا جو ان پانچ خواتین کو کولمبو ائیرپورٹ سے نواریلیا کے پہاڑی مقام تک لے کر جاتی- بی بی نے یہ کار خیر اپنی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے صفو جی کے سپرد کیا جنہوں نے نہایت مہارت سے سات سیٹوں والی ایک منی وین بشمول ڈائیور نہ صرف نواریلیا تک بلکہ پورے دورائے سری لنکا کے لیے بک کر لی- میں میز پر پڑا خاموشی سے یہ ساری کاروائی دیکھ رہا تھا- گاڑی ملنے کی خوشی میں سب لوگ جلدی میں گاڑی کی طرف بڑھے اور بی بی حسب معمول مجھے میز پر ہی بھول چلیں مگر وہ تو بھلا ہو چتو رانی کا جنہوں نے مجھے دیکھ کر اٹھا لیا یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد کے پندرہ منٹ اپنی انگلی سے میرے ڈھانچے پر چیونٹیوں کی نسل کشی کرتے مجھے نیل و نیل کر دیا- اطراف کا سبزہ، چھوٹی بڑی گلیاں، لنگیاں پہنے گلیوں میں پھرتے لوگ، اطراف کا سبزہ، اسکول یورنیفارم میں چلتے پھرتے بچے، چھوٹی چھوٹی دکانیں، ساڑھیوں اور اسکرٹوں میں پھرتی پر اعتماد خواتیں، اطراف کا سبزہ اور مزید سبزہ ان تمام مناظر کا حصہ تھے جنہیں بی بی میری آنکھ سے محفوظ کر رہی تھیں- گاڑی میں بیٹھے قریب آدھا گھنٹا ہی گزرا ہو گا کہ بٹیا، منا اور چتو رانی کی بھوک اور العتش کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں- سڑک کے کنارے ایک ریستورانت میں گاڑی روکی گئی اور سب نے مل کر سری لنکن کھانا تناول فرمایا، کچھ نے شوق سے اور کچھ نے بحالت مجبوری- دیکھنے میں تو پاپڑ، دال، کراری آلو کی ترکاری اور خشکا چاول نہایت لذیز لگ رہےتھے مگر شاید بچیوں کے لیے یہ تمام ذائقے نئے تھے اسی لیے وہ جوس اور کولڈ ڈرنک کی مدد سے کھانا حلق سے اتار رہی تھیں جبکہ بی بی اور صفو جی چٹخارے لے لے کر سب کچھ چٹ کر رہی تھیں۔ نواریلیا تک کے سفر کا پہلا اسٹاپ جلد ہی آ گیا جب گاڑی “دی ملینیم ایلیفنٹ فاؤنڈیشن“ کے آحاطے میں جا کر رکی- یہ ہاتھیوں کی ایک چھوٹی سی رہائش گاہ تھی جہاں ٹورسٹ حضرات آ کر ان دیو ہیکل جانداروں کے ساتھ وقت بتاتے ہیں، ان کو نہاتے، کھاتے اور کرتب کرتے دیکھتے ہیں- جب ہاتھیوں کی درگت بننا ختم ہوئی تو انسانوں کی باری آئی، جی ہاں میری فیمس فائیو بڑے جوش و خروش سے ہاتھی کی سواری کے لیے لائیں میں لگیں مگر یہ کیا ہتھنی صاحبہ تو ننگی پیٹھ لیے خدمت کو حاظر اور موقع کی نزاکت کا یہ عالم کہ نہ لائین سے باہر نکلتے پڑے اور ہتھنی پر چڑھتے کلیجہ منہ کو آئے- اگر آپ نے جارج آرول کا مضمون شوٹنگ این ایلیفنٹ پڑھا ہے تو ان بیبیوں کی حالت بھی کچھ ویسی ہی تھی کہ مقابل میں ہاتھی اور انسان کی بے بسی ایسی کہ نہ نگلتے بنے نہ اگلتے۔ خیر مجھ کو صفو جی کے ہاتھ میں تھما کر پہلے بی بی، منا اور بٹیا لکشمی پر سوار ہوئیں- لکشمی نے قدم اٹھائے، کولہے ہلائے اور اب سب کی چیخیں فضا میں بلند ہوئیں- جب ان کو اندازہ ہو گیا کہ ان کی چیخ و پکار کا لکشمی یا اس کے سائیس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا اور لکشمی ایک آٹو گائیڈڈ میزائیل کی طرح اپنے مدار کا چکر مکمل کر کے ہی دم لے گی تو ایہوں نے لکشمی کو رجہانے کے لیے اس سے کلام شروع کیا مگر لکشمی تو کسی بات پر کان دھرنے کو رضامند نہ تھی اس لیے جلد ہی کلمہ اور درود کا ورد شروع ہو گیا اور یہ تینوں سواریاں آنکھیں موندے کلمہ پڑھتے منزل کو پہنچیں- انسان بھی عجیب مخلوق ہے دوسروں کے تجربوں سے سیکھنے کو قطعا راضی نہیں سو صفو جی اور چتو رانی بھی یہ لڈو چکھنے لائین میں لگ گئیں اور ان کی حالت بھی باقی تینوں جیسی ہی ہوئی- ڈرائیور مسٹر آشا جنہوں نے اب سالار کارواں کے فرائض سنبھال لیے تھے نے اگلا اسٹاپ اسپائس گارڈن منتخب کیا اور کیونکہ سری لنکا کی دار چینی اور نادر جڑی بوٹیاں مشہور ہیں اس لیے صفو جی اور بی بی بھی ہاتھی کی سواری کے اثرات کو مندمل کرتے، قمر سہلاتے، لڑکھڑاتے اسپائس گارڈن کی زیارت کو چل پڑیں- اسپائس گارڈن کے گائیڈ نے پندرہ منٹ میں اسپائس گارڈن اور پینتالیس منٹ میں ان جڑی بوٹیوں سے بننے والی کرشماتی اور جادوئی مصنوعات کا ایسا تعارف کرایا کہ لگتا تھا کہ موت کے علاوہ انسان کو درپیش ہر مسئلے کا حل ان جڑی بوٹیوں سے بننے والی مصنوعات میں پوشیدہ ہے- اسطرح صفو جی اور بی بی دونوں ہاتھوں میں تھیلے پکڑے چند سو ڈالر لٹائے گاڑی میں دوبارہ سوار ہو گئیں-
انتاکشری کا راؤنڈ، سوال جواب کا سلسلہ، بسکٹوں کے تھیلے کی کھلنے بند ہونے کی آواز، لمبی خاموشی اور خرانٹوں کی ہلکی آواز، مزید انتاکشری، بچوں کی لڑائیاں اور وقفے وقفے سے کیے جانے والا ایک ہی سوال کہ ہم نواریلیا کب پہنچیں گے کی درمیان سفر کٹتا چلا گیا- یہاں تک کہ شام کے سائے گہرے ہونے لگے۔ رستے کے سبزے اور خوبصورتی کے طلسم نے اب ایک حولناک شکل اختیار کر لی تھی- سڑک کسی گھن چکر کی طرح گول گول گھوم کر سب کو گھما رہی تھی۔ گاڑی کے ایک طرف پہاڑ تو دوسری طرف گہری کھائی تھی مگر اللہ کی مہربانی کہ رات اتنی سیاہ تھی کہ کھائی کی گہرائی کا صحیح طور پر انداذہ نہیں لگایا جا سکتا تھا- نواریلیا ٹاؤن کا بورڈ پڑھ کر سب کی جان میں جان آئی مگر یہ کیا مسٹر آشا تو ٹاؤن کی طرف جانے کی بجائے ایک اور پکڈنڈی پر گاڑی چڑھانے لگے- بی بی کی آہ و بقا پر معلوم ہوا کہ جو ہوٹل بک کیا ہوا ہے وہ آبادی سے ہٹ کر ٹی پلانٹیشن کے عین درمیان ہے- اس اطلاع پر سب نے بی بی کی طرف خونخار نظروں سے دیکھا کیونکہ بکنگ بی بی نے کرائی تھی۔ لگتا نہیں تھا کہ یہ وہی گاڑی ہے جہاں چند گھنٹوں پہلے ہلا گلا اور گانے بجانے عروج پر تھے کیونکہ اب ان سب کی جگہ ہو حق کی خاموشی اور اس کے درمیان ناد علی کی ہلکی ہلکی آوازوں نے لے لی تھی- شاہراہ کے سڑک اور سڑک کے گلی بننے تک تو بات ٹھیک تھی مگر جب گلی نے کچی پکڈنڈی کا روپ دھارا تو سب کی جان فنا ہو گئی- بیس منٹ پکڈنڈی پر چڑھائی کے بعد جبکہ واحد روشنی گاڑی کی دو ہیڈ لائیٹس تھیں لگتا تھا کہ شاید ہم دنیا کہ آخری سرے پر پہنچ گئے ہیں- اس بے یار ومددگاری کی حالت میں دور اندھیرے کے غلاف میں ایک جگمگاتی چیز نظر آئی مگر یہ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس روشنی کے منبے تک پہنچا کیسے جائے کیونکہ پکڈنڈی باریک سے باریک تر اور اندھیرا گہرے سے گہرا تر ہوتا جا رہا تھا —