ٹھک ٹھک ٹھک ۔۔۔ لان میں قناتوں کے ٹھکنیں کی آواز، ٹیں ٹیں ٹیں ۔۔۔ باورچی خانے سے چائے کی کیتلی کی مستقل سیٹیاں بجانے کی آواز، دھڑ دھڑ دھڑ ۔۔۔ گھر کا وسطی دروازہ اندر اور باہر کھلنے کی آواز۔ ‘کیا سب ناشتہ کر چکے ہیں، کوئی رہ تو نہیں گیا؟“ پھپھو کی آواز، “جلدی سے غرارہ نکال کر دو میں ایک ہاتھ استری کا مار دوں“ امی کی آواز، “اے بی بی میں گرم پانی بالٹی میں انڈیل آئی ہوں سو آپ جلدی سے نہا لیجیے“ بوا کی آواز- غرضیکہ بارات کی صبح گھر کے چاروں کونوں سے اسی قسم کی آوازیں آ رہی تھیں اور خاص کر کے جب بارات کی آمد کا وقت دوپہر کا ہو-
دلہن ایک کمرے میں اپنی سہیلیوں کے ہمراہ تیار ہو رہی تھی- بوا کی خاص ڈیوٹی تھی کہ اس کمرے میں پھل، دودھ اور چائے کی سپلائی لائین جاری رہے- دلہن کو سجانے سنوارنے کی ساری ذمہ داری اسکی سہیلیوں، بہنوں اور کزنز کی تھی- مہندی والی رات کو ہی دلہن کے ہاتھوں پاؤں کو کراچی والی کزن نے مہندی کے خوبصورت اور نازک نمونوں سے سجا دیا تھا اور اب سب سکھی سہیلیاں مل کر خود بھی تیار ہو رہی تھیں اور دلہن کا بھی بناؤ سنگھار کیا جا رہا تھا- کمرے کے بیچ میں میز پر لال چمڑے کا بیوٹی بکس کھلا پڑا تھا جس میں میک اپ کا ڈھیر سارا سامان جو کہ امریکہ والی منی خالہ لے کر آئی تھیں قرینے سے سجا ہوا تھا- میں جو عمر میں اس وقت بارہ برس کی تھی بوا کی چائے کی ٹرالی کے ہمراہ دلہن کے کمرے میں گھس گئی اور پھر اس کے بعد کے دو گھنٹے تو جیسے حقیقت اور خواب کی کیفیت کے بیچ میں گزرے ہوں- عظمی باجی جو کہ میری کزن یعنی کہ دلہن کی سہیلی تھیں نے دلہن کو سنگھار میز کے آگے اسٹول پر بٹھایا اور ایک کنگھی کی مدد سے دلہن کے ریشمی بالوں کی لٹوں کو ایک ایک کر کے پھلانا شروع کیا یہاں تک کہ دلہن کا آدھا سر ہیروشیما کا میدان نظر آنے لگا یعنی کہ آدھے سر کی بیک کومنگ کی گئی- مگر کچھ ہی دیر میں کمال مہارت کے ساتھ عظمی باجی نے ہیرو شیما کے میدان کو سمیٹ کر افشاں کی قوس و قزاح کے ساتھ گل و گلزار بنا دیا– سرخی، پاؤڈر اور کاجل نے مل کر ہماری سادہ سی دلہنیا کو چار چاند لگا دیے-
“ امی مجھے اورنج جوس کا ایک گلاس دے دیں“ یہ تھیں ہماری ٢٠١٤ ماڈل کی دلہن جو کہ تین دن سے ڈی ٹاکس ڈائیٹ پر تھیں تاکہ عروسی جوڑے میں سانس کی تار بغیر جھٹکے کے چلتی رہے- دلہن کے ہمراہ اسکی سہیلیوں کی ٹیم اور کچھ کزنز سب پارلر کے لیے نکل رہی تھیں جہاں وہ شام تک قیام پذیر رہ کر مینی کیور، پیڈی کیور، مساج، فیشل اور میک اپ کرانے کا عندیہ رکھتی تھیں- ہیڈ میک اپ آرٹسٹ نے دلہن کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور باقی کی خواتین پارلر میں موجود مختلف آرام دہ کرسیوں پر ڈٹ گئیں- چند دہائیوں قبل یہ بات ناقابل تصور تھی کہ ہاتھوں پیروں کی صفائی کے لیے بھی دکانیں موجود ہوں گی- خیر یہ تو تھی دلہن کی ٹیم کی تیاری مگر ہمارا دولہا بھی تیاری میں دلہن کے شانہ بشانہ موجود تھا یعنی کہ دولہا بھی تیار ہونے پارلر گیا جہاں اس کا مینی کیور، پیڈی کیور، حجامت، باڈی مساج اور فیس پالش بھی کیا گیا۔ چودھویں کے چاند کی مانند لائیٹیں مارتا ہوا دل والا دولہا اب اپنی دلہنیا کو لے جانے کے لیے بالکل تیار تھا مگر رکیے رکیے زرا بریک لگائیے کیونکہ ابھی ایک بے حد ضروری مرحلہ باقی تھا اور وہ تھا فوٹو شوٹ اور پرسنل مووی بننے کا جس کو عرف عام میں ریٹارڈڈ ویڈنگ وڈیو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے- تو دولہے میاں نے دلہن کو پارلر سے پک کیا تاکہ یہ کار خیر بجا لایا جائے- زرا سوچیئے کہ چند دہائیوں قبل کیا یہ بات تصور بھی کی جا سکتی تھی کہ آرسی مصحف کی رسم سے پہلے دولہا دلہن کی جھلک تک دیکھ پائے-
خیر بالاخر دولہا دلہن فوٹوگرافر کے اسٹوڈیو پہنچے جہاں فوٹوگرافر نے ڈگڈگی پر ناچتے ہوئے بندر کی طرح دونوں کو نچانا شروع کیا۔ کبھی دولہا سلائیڈ پر تو دلہن پینگ پر، تو کبھی دولہا گھٹنوں پر اور دلہن بلا وجہ شرمانے کے پوز میں، کبھی دلہن دولہے کو نک ٹائی سے پکڑے گھسیٹتی ہوئی، تو کبھی دولہا کے کاندھوں پر سوار اس کو قبل از وقت گدھا بناتی دکھائی دی- اللہ اللہ کر کے تصویریں ختم ہوئیں تو وڈیو کی باری آئی، “مختصر ملاقات ہے، انکہی کوئی بات ہے“ اور “کچھ نہ کہو کچھ بھی نہ کہو“ کی خوبصورت دھنوں پر دونوں نے شاہ رخ خان اور کاجل کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ کہنے کی بات ہے- اب جب کہ تمام ضروری ریکارڈنگ ختم ہو گئی تو لائیو پرفارمینس کے لیے دلہن شادی ہال اور دولہا اپنے گھر کے لیے روانہ ہوا جہاں ڈیڑھ سو لوگ سہرا بندی کی رسم کے لیے ہاتھوں میں سلامی کے لفافے تھامے سوکھ رہے تھے-
“راجہ کی آئے گی بارات، رنگیلی ہو گی رات مگن میں ناچوں گی“ بینڈ باجے والوں کی ٹیم ڈرم، شہنائی اور مختلف سازوں کے ہمراہ شادی بیاہ کی روائیتی دھنیں چھیڑتے ہوئے آگے آگے چل رہے تھے اور ان کے پیچھے کاروان کی صورت میں باراتی گھسٹے چلے آ رہے تھے- بارات کے استقبال کے لیے خاندان کے بزرگ گلاب اور موتیے کے ہار لیے آگے موجود تھے جبکہ ان کے پیچھے تمام لڑکیاں جو بارات کی آمد کا سنتے ہی دلہن کو چھوڑ چھاڑ کر باہر کی طرف بھاگیں، ہاتھ میں گلاب کی پتیوں کی چنگیریں لیے کھڑی تھیں- دولہا سر تا پا سہرے کی بھاری لڑیوں میں چھپا ہوا بلائینڈ فورس کا کمانڈر لگ رہا تھا جسے دونوں جانب سے اسکے بھائیوں نے بازؤں سے تھام رکھا تھا کہ کہیں ٹھوکر لگنے پر گر نہ پڑے- پنڈال میں گھستے ہی اس مسکین پھولوں کے تودے پر مزید ہار ڈالے گئے اور ان کے بوجھ تلے دولہا بمشکل لڑکھڑاتا ہوا اسٹیج تک پہنچا – اسٹیج پر لال مخمل کا صوفہ سجا ہوا تھا جبکہ اسٹیج کے پیچھے والی قنات پر ستاروں سے شادی مبارک جلی حروف میں لکھا ہوا تھا- دولہے پر رحم کھا کر میری پھپھو یعنی کے دولہے کی خوش دامن نے چند ہاروں کا بوجھ اسکی گردن سے کم کیا اور سہرے کو بھی سمیٹ کر پیچھے کی طرف ڈالا تاکہ کم از کم سانس لینے اور باہر کی دنیا دیکھنے میں آسانی ہو- اب دولہے کا واحد امتحان پیچھے پڑی سہرے کی لڑیوں کے بوجھ کو سہارتے ہوئے اپنے سر کا توازن برقرار رکھنا تھا- باراتیوں کے بیٹھتے ہی ان کی تواضع ٹھنڈی ٹھنڈی آرسی کولا اور سیون اپ کی اسٹرا لگی بوتلوں سے کی گئی جو بڑے بڑے جست کے ٹبوں میں گھنٹے دو گھنٹے سے برف کی سلوں کے بیچ ٹھنڈی ہو رہی تھیں-
ابھی باراتی بیٹھے ہی تھے کہ مولانا صاحب نکاح کے لیے اسٹیج پر تشریف لے آئے- آدھے گھنٹے میں مولانا صاحب نے نکاح کے صیغے پڑھائے ، دعا کرائی اور دولہے سے نکاح نامے پر دستخط کرائے- دستخط کرتے ہی مبارک سلامت کا شور اٹھا اور سب لوگ بغل گیر ہونے لگے- بہرے اسٹیل کے تھالوں جو کہ گوٹا کناری لگے خانپوشوں سے سجے ہوئے تھے میں چھوارے اور مکھانے لے کر مہمانوں میں بانٹنے لگے- اس سب ہنگامے کے بیچ ایک وفد مولوی صاحب کے ہمراہ دلہن کے پاس پہنچا اور اس سے دستخط کرائے جو اس نے کانپتے ہاتھوں اور برستی آنکھوں کے بیچ کیے- مولوی صاحب کے جاتے ہی دلہن کی سہیلیاں ڈزاسٹر کنٹرول ٹیم کی مانند دلہن پر جت گئیں اور آنسوؤں کی برسات نے جو کچھ بہایا تھا اس کو نئے سرے سے سرخی پاؤڈر کی مدد سے جمایا- ابھی یہ مشق جاری ہی تھی کہ دلہن کو باہر لانے کا شور اٹھا سو دلہن اپنی سہیلیوں اور بہنوں کے ہمراہ لال ٹشو کے دوپٹے کا گھونگٹ کیے باہر قنات میں لائی گئی- اسٹیج پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے آرسی مصحف کی رسم ادا کی گئی یعنی کہ دلہن کا گھونگٹ والا دوپٹہ دولہے کے سر پر بھی ڈالا گیا اور ان کی گود میں ایک آئینہ رکھا گیا تاکہ دلہن کا عکس آئینے میں سب سے پہلے دولہا دیکھے اور اس کے بعد دلہن کا گھونگٹ الٹا دیا گیا- سلامیوں کی رسم شروع ہوئی تو دلہن کی خالہ اسٹیج پر کاغذ قلم لے کر ایک تھانے دار کی مانند جم گئیں اور لوگوں کی لائی ہوئی سلامیوں کا اندراج کرنے لگیں- گیارہ روپے، اکیس روپے، اکیاون روپے یا ایک سو گیارہ روپے، لوگ اپنی اپنی سلامی کی رقم کے حصاب سے یا تو گھبراتے، یا شرماتے یا پہر سینہ ٹھونک کر اسٹیج پر چڑھتے دکھائی دے رہے تھے- سلامیوں کے بعد کھانا کھل گیا اور دولہا دلہن سمیت تمام افراد کھانے میں مصروف ہو گئے- دلہن کو اسکی بہن نے کھانا کھلایا جو کہ کسی امتحان سے کم نہ تھا کیونکہ ایک طرف تو دلہن کا میک اپ خراب ہونے کا خدشہ تھا اور دوسری جانب دلہن کی نتھ کسی سخت گیر پہرہ دار کی مانند اسکے لبوں کا گھیراؤ کیے ہوئے تھی- کھانے کے بعد دولہے میاں کی سالیوں نے ان سے دو دو ہاتھ کیے اور دودھ پلائی اور جوتی چھپائی کے عوظ خوب رقم بٹوری اس نوک جھوک میں مزید وقت گزر گیا اور بالآخر وہ گھڑی آن پہنچی جب دلہن بیگم کو پیا کے گھر سدھارنا تھا- دلہن کے بڑے ماموں نے اسے دونوں شانوں سے تھاما اور بھائی نے سر پر قرآن پاک کا سایہ کیا دلہن کی آنکھوں سے گنگا جمنا جاری تھااور وہ تمام تقاریر جو اس کی سہیلیوں نے اسے میک اپ خراب ہونے کے حوالے سے کی تھیں ضائع ہوتی نظر آ رہی تھیں-
شادی کے ہال کی سجاوٹ یش چوپڑا کی فلم کے سیٹ سے ہر گز کم نہ تھی- پورے ھال کو امپورٹڈ پھولوں سے سجایا گیا تھا- اسٹیج پر پڑے کریم کلر کے نازک دیوان کے پیچھے پہھولوں کی ایک اسکرین سجی ہوئی تھی جس میں ہلکے گلابی اور سفید، للی، کارنیشن اور گلاب ٹکے ہوئے تھے- ہلکا انسٹرومینٹل میوزک ماحول کی دلفریبی میں خاطرخواہ اضافہ کر رہا تھا- ساڑھے آٹھ بجے کے قریب بارات کی آمد ہوئی تو ہال کے دروازے پر لڑکی والوں نے ان کا استقبال خواتین کے لیے موتیے کے گجروں اور مرد حضرات کے لیے گلاب کی کلیوں سے کیا- “ سوہنیے سہرا باندھ کے میں تو آیا رے، ڈولی بارات بھےی ساتھ میں لے کر آیا رے“ کی دھن پر باراتی ناچتے ہوئے ہال میں داخل ہوئے- دولہا تلے اور دبکے کے کام والی شیروانی اور مہاراجہ پگڑی میں سلام عشق کا سلمان خان دکھائی دے رہا تھا- بارات کی آمد کے کچھ دیر بعد ہی دلہن نے اپنے دونوں بھائیوں کے ہمراہ انٹری دی اور دولہے نے آگے بڑھ کر اس کا ہوتھ تھامتے ہوئے استقبال کیا اور اسے اسٹیج پر لے آیا- خھانے اور سلامیوں کے درمیان جو سب سے بڑا مرحلہ تھا وہ فیملی فوٹوگرافس کا تھا تو اس کے لیے پہلے ہی سے میری کزن کی ڈیوٹی لگا دی گئی تھی اور وہ کسی ماہر مینیجر کی طرح خاندان کے ہر انڈے بچے کو جمع کر کے اسٹیج پر تصویر کھنچانے لا رہی تھی- تصویروں سے فارغ ہوئے ہی تھے کے بڑی ہوشیاری سے دلہن کی سہیلیوں نے دولہا کا جوتا اتار لیا اور امریکی ڈالروں کی ڈیمانڈ سامنے رکھ دی- دولہا کے ایک دوست نے یہ سن کر اپنا جوتا اتار کر دولہے کو پہنانے کی کوشش کی تو سب لڑکیاں چیخنے چلانے لگیں- بحر کیف کافی بحث مباحثے کے بعد دولہا نے کئی ہزار روپوں سے لڑکیوں کا منہ بند کیا اور اپنی جان چھڑائی- بالآخر رخصتی کا وقت آ پہنچا اور دلہن این سی سی پریڈ کے کمانڈر کی طرح کھڑی ہو گئی- وہ دولہا سے دو قدم آگے چل رہی تھی جب پیچھے سے اس کی خالہ نے آواز لگائی، “نازیہ بیٹے ابو سے تو مل لو“ نازیہ بیٹی نے ہاتھ ہلا کر ایک ہی وار میں ابو، امی، بھائی اور بہنوں سب کو بھگتا دیا- دلہن کے ہمراہ اسکی چند قریبی سہیلیاں بھی گئیں جو دولہا دلہن کو ہوٹل کے کمرے تک پہنچا کر واپس آ گئیں-
دلہن رخصت ہو کر اپنے سسرال آئی تو ساس نندوں نے دروازے پر استقبال کیا- صدقہ اتارا گیا اور دروازے کے دونوں کونوں میں تیل ڈالا گیا- دلہن کو لا کر ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا- دولہا اور دلہن نے قرآن شریف کھول کر ایک ایک آیت پڑھی- دولہا کی بہنیں دودھ کا جگ اور چاندی کی سلوچی لے آئیں تو دولہا نے دودھ اور پانی سے دلہن کے پاؤں دھلوائے اور وہ پانی برکت کے لیے بعد مین گھر کے چاروں کونوں میں چھڑکا گیا- آخری رسم کے طور پر دولہا نے دلہن کے آنچل پر دو رکعت نماز شکرانہ ادا کی اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا-
یہ نہایت عجیب بات ہے کہ دلہن چاہے اسی کی دہائی کی ہو یا ٢٠١٤ کی بارات پر جتنی سہمی ہوئی دکھائی دیتی ہے ولیمے پر اتنی ہی پر سکون اور کھلی ہوئی معلوم ہوتی ہے اور یہی حال ہمارے دونوں جوڑوں کا تھا- رشتہ ازدوج میں بندھ کر، ایک دوسرے کا ساتھ پاکر، خوشدلی، تمانعت اور سرور ان کے انگ انگ سے چھلک رہاتھا-